وزیراعظم نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے علاوہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے۔
تنخواہوں میں نمایاں اضافے نے ردعمل کو جنم دیا ہے، جس پر سیاسی اور عوامی حلقوں دونوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ان کی تنخواہوں میں غیر معمولی 600 فیصد اضافہ ہوا ہے، 205,000 روپے سے 1.95 ملین روپے تک۔ ان اعلیٰ عہدے داروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے فیصلے کی وفاقی حکومت نے منظوری دے دی تھی، عوامی ردعمل کے بعد اب وزیراعظم کا دفتر اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس اضافے کی مذمت کرتے ہوئے اسے “مالی فحاشی” قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے اضافے عام آدمی کی جدوجہد کے لیے غیر حساس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری عزت اور وقار کا دارومدار لوگوں کی بھلائی پر ہے۔ تنقید کے جواب میں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ نے واضح کیا کہ یہ تنخواہوں میں اضافہ زیر بحث عہدیداروں نے خود نہیں کیا تھا بلکہ وفاقی حکومت نے منظور کیا تھا۔
سیکرٹریٹ کے ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر یا چیئرمین سینیٹ اپنی تنخواہوں میں یکطرفہ اضافہ نہیں کر سکتے، ایسی تبدیلیوں کے لیے وزیراعظم اور کابینہ کی رضامندی ضروری ہے۔
اس معاملے کو مزید پیچیدہ کرتے ہوئے، 29 مئی کو ایک حکومتی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں نظرثانی شدہ تنخواہوں اور الاؤنسز کی تفصیل دی گئی، بشمول صوابدیدی الاؤنسز میں 50 فیصد اضافہ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کی منظوری وفاقی حکومت نے دی تھی۔