اسلام آباد قتل عام کے سانحے کو جلیانوالہ باغ کی طرح نہ عوام بھولے گی نہ ہم بھولیں گے۔
جنرل ڈائیر کا قتل عام سو سال بعد بھی عوام کو یاد ہے۔ اس وقت نہ کیمرے تھے نہ میڈیا تھا۔
اسلام آباد قتل عام کے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں، یہ شواہد چھپائے نہیں جا سکتے، آج نہیں تو کل سب ظاہر ہو جائے گا۔
میری اپنی پارٹی اور کارکنان کو ہدایت ہے کہ اس ظلم پر پارلیمنٹ عدلیہ، انٹرنیشنل میڈیا سمیت بر سطح پر بھرپور آواز اٹھائیں۔
پندرہ دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہدائے اسلام آباد قتل عام کے حوالے سے یوم سوگ اور دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
ہمیں آخری سٹیج پر دھکیلا گیا، لوگ پرامن احتجاج کرتے ہیں تو ان پر سیدھی گولیاں چلائی جاتی ہیں، ہمارے شہدا کا ڈیٹا تک چھپا لیا گیا، کئی لوگ لاپتہ کر دئیے گئے، مجھے ایک کیس کے بعد دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے سول نافرمانی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا اگر سینئر ترین ججز پر مشتمل آزاد جوڈیشل کمیشن اور انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی کے ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے تو سول نافرمانی کی تحریک بھرپور طریقے سے چلائی جائی گی جس میں پہلا قدم اووررسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں کمی کی مہم ہو
گی۔
ہم اداروں سے کہتے ہیں کہ جو لوگ عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کا کام کر رہے ہیں انہیں پہچانیں اور روکیں۔ ہم اپنا ملک ٹوٹنے نہیں دیں گے۔
جنرل فیض جنرل باجوہ کے ماتحت تھے۔ جنرل فیض کا معاملہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
جب میں وزیر اعظم تھا جنرل فیض جنرل باجوہ کی اجازت سے مجھے ملتے تھے اور پھر جنرل باجوہ کو ڈی بریف بھی کرتے تھے۔ نو مئی کے سلسلے میں جنرل فیض سے تعلق جوڑنا احمقانہ بات ہے۔
کیا مجھے پتہ تھا کہ نو مئی کو مجھے گرفتار کرنا ہے؟ تو سازش کس بات کی کرنی تھی؟ جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری کیا مدد کر سکتے تھے؟
اصل حساب تو جنرل باجوہ کا ہونا چاہئے جس نے ہماری منتخب حکومت کے خلاف سازش کی۔ اس بات کو مولانا فضل الرحمن ، شاہد خاقان عباسی محمد زبیر سمیت بہت سے لوگ کنفرم کر چکے ہیں۔ ایک منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں جنرل باجوہ کا ٹرائل ہونا چاہئے۔