بجٹ اور سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے، پاکستان کے لیے یہ لمحہ ایک سنگِ میل جیسا ہے: وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کے موقع پر چین کے ساتھ 8.5 ارب ڈالر کے معاہدے دستخط کیے ہیں، جو پاکستان کی معیشت میں نئی توانائی بھرنے کا سبب بن سکتے ہیں
یہ سرمایہ کاری دو حصوں میں تقسیم ہے: پہلا حصہ 7 ارب ڈالر کا Memorandum of Understanding (MoU) ہے، اور دوسرا حصہ 1.5 ارب ڈالر کے مشترکہ منصوبوں پر مشتمل ہے – یہ معاہدے متنوع شعبوں سے جڑے ہیں—زراعت، قابلِ تجدید توانائی، برقی گاڑیاں، صحت، اور اسٹیل—جو مستقبل میں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرتے ہوئے روزگار کے خوشنما مواقع فراہم کریں گے
معاہدوں کے مثبت اثرات کے پیش نظر، پاکستان نے “CPEC 2.0” کا بھی اعلان کیا ہے—ایک نیا دور، جو 2015 کے بعد سے جاری CPEC (چائنا پاکستان اقتصادی راہداری) کا دوسرا مرحلہ ہے۔ اس نیا پہلو “پانچ نئے کورڈورز” پر مشتمل ہے جس کے ذریعے باہمی تجارتی، زرعی، اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لانے کا منصوبہ ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس بار توجہ خصوصی طور پر B2B یعنی بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری کو مرکز میں رکھ کر جدید زراعت، AI، اور IT جیسے شعبوں کو مضبوط کیا جائے گا
اس دوران، وزیر اعظم شہباز شریف نے سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ “سرکاری کاغذی کارروائی (red tape)” کو ختم کیا جائے گا، اور چین کے مزدوروں اور اسٹیک ہولڈرز کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا ۔ چینی وزیر اعظم لی ژیانگ کے ساتھ ہونے والی اس میٹنگ کو دونوں جانب “انتہائی نتیجہ خیز” قرار دیا گیا—جس نے دو ملکوں کے دیرینہ اور مؤثر شراکت داری کو نئی توانائی سے لیس کیا
اثرات اور مستقبل کی راہیں:
معاشی استحکام: معاہدے اور CPEC 2.0 منڈی کو متحرک کر کے ملازمتوں کی راہیں کھول سکتے ہیں۔
زرعی ترقی: چونکہ پاکستان میں زراعت میں 60 فیصد آبادی مصروف ہے، چین کے جدید بُنیاداتی اشتراک معیشت میں تنوع لا سکتے ہیں
برآمدات میں اضافہ: خاص طور پر کاٹن، خوردنی پھل، اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کو نئی قوت مل سکتی ہے۔
سیکیورٹی اور تحفظ: چینی کارکنوں اور سرمایہ کاری کو ممکنہ خطرات سے محفوظ بنانے کے حکومتی وعدے حکمت عملی میں جوابدہی کا عنصر نمایاں کرتے ہیں۔