پاکستان کی سیاست اور جمہوریت

پاکستان کی سیاست اور جمہوریت
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت
تحریر: عمارہ کنول
1947 میں معرضِ وجود میں آنے والی ریاست شروع ہی سے بےسازوسامان, لاچار ریاست جس کے پاس کھانے کو نہ تو کھانا تھا نہ پینے کو پانی جس کے پاس نہ تو کوئی آئین تھا جس سے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی جاسکے۔ ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین جس کے سپیکر تھے اس اسمبلی کو برطرف کر دیا جاتا ہے کسی کی بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ دیا جاتا ہے جس کی چنگاری آج تک عدلیہ کے ہر فیصلے میں پائی جاتی ہے۔ 10 کے مختصر عرصہ میں 7 وزیراعظم اقتدار پر قابض ہوئے جو 2 ہونے چاہیے تھے مشکل سے 1956 میں آئین بنتا ہے ایک امید پیدا ہوتی ہے کہ ملکی حالات قدر بہتر ہوجائیں گے لیکن یہ خوشی 2 سال بعد مارشل لاء کی نظر ہوجاتی ہے اور جنرل ایوب خان ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن جاتے ہیں یہ وہ دور تھا جسے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کہا جاتا ہے لیکن یہ ترقی بھی جلدی زوال کی نظر ہوگئی 1962 میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں مادر ملت فاطمہ جناح کو کردار کشی اور دیگر الزامات لگوا کر الیکشن سے باہر کر کے ایوب خان پھر اقتدار کا مزہ لینے آجاتے ہیں 1962 میں صدارتی آئین تشکیل پاتا ہے جس میں تمام تر اختیارات صدر کے پاس ہوتے ہیں اس آئین کو جنرل ایوب کے ذہن کا بچہ کہا جاتا ہے 1969 میں یہ آئین بھی توڑ دیا جاتا ہے پھر 1969 میں اقتدار منتقل ہوتا ہے پھر سے فوجی آمر کو مارشل لاء ختم نہیں کیا جاتا انہی جنرل ایوب خان کی حکومت میں دارلحکومت کراچی سے اٹھا کر اسلام آباد منتقل کیا جاتا مشرقی پاکستان کو دارالحکومت سے سینکڑوں میل دور کر دیا جاتا ہے پھر جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقلی کے بعد مغربی پاکستان کے صوبوں کو بحال کر کے 1970 کے الیکشن کروائے جاتے ہیں ملکی تاریخ کے پہلے جمہوری انتخابات جو کسی برے خواب سے بھی بدتر ثابت ہوئے یہ وہ وقت تھا یہ وہ انتخابات تھے جس نے میرے جگر کو دولخت کردیا مشرقی پاکستان موجودہ بنگلادیش میں عوامی نیشنل پارٹی شیخ مجیب رحمان 160/162 ووٹ حاصل کرتے ہیں جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پاڑٹی ذوالفقار علی بھٹو 81 ووٹ لیتے ہیں مشرقی پاکستان میں نہ تو بھٹو کی کوئی سیٹ تھی نہ مغربی پاکستان میں مجیب الرحمان کی کوئی سیٹ تھی ملک واضح دو حصوں میں بٹ چکا تھا مشرقی پاکستان میں بنگالی تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور پاکستان کا بازو پاکستان کا جگر دو لخت ہوگیا اور 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان الگ ریاست بنگلادیش بن گیا اور یوں قائد کا پاکستان علامہ اقبال کا خواب ٹوٹ گیا اور صرف مغربی پاکستان پاکستان بن گیا۔
اب 1971 میں پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اقتدار پر قابض ہوکر پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں پھر بھٹو صاحب کے مخالف 9 ستاروں کا جھرمٹ پاکستان نیشنل الائنس تشکیل پاتا ہےبھٹو صاحب عوامی مقبولیت کے باعث پی این اے ہر حربہ آزماتی ہے آخر کار تحریک نظام مصطفیٰ تحریک لائی جاتی ہے جس کا نعرہ نظامِ مصطفیٰ تھا ملک گیر احتجاج اور سیاسی بےسکونی کے باعث ملک میں ایک بار آئین کی خلاف ورزی کرکے ملکی اقتدار ایک بار پھر سے فوجی امریت کی نظر ہو جاتا ہے 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو احمد رضا قصوری کی جھوٹے مقدمے میں قید کر دیے جاتے ہیں اور 4 اپریل 1979 کو بھٹو صاحب کو راولپنڈی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی جاتی ہے جنرل ضیاءالحق ملک میں اسلامازیشن شروع کرتے ہیں جس میں تمام تر کام قانونی اور سزائیں قرآن و سنت کی روشنی میں کرنے کا حکم دیا پھر 17 اگست 1988 بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثہ پیش آتا ہے جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء کے 11 سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور نومبر 1988 کو ملک میں عام انتخابات کروا دیے جاتے ہیں اور اقتدار مرحوم بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کے حصے میں آجاتا ہے اور پھر 1990 میں صدر غلام اسحاق خان بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرکے الیکشن کروادیتے ہیں اس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر 1993 میں انکی حکومت کو اسمبلی سے نکال کر گھر بھیج دیا جاتا ہے پھر الیکشن کروا دیے جاتے ہیں اور پھر 1993 میں بینظیر بھٹو حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں پھر 1997 میں انکی حکومت کو پھر برطرف کردیا جاتا ہے اور 1997 میں نواز شریف پھر دوسری مرتبہ وزیراعظم بن جاتے ہیں اور 28 مئی 1998 کو پاکستان بلوچستان میں چاغی پہاڑیوں پر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سائے میں ایٹمی طاقت بن جاتا ہے اور 12 اکتوبر 1999 میں ایک بار پھر آئین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور جنرل پرویز مشرف اقتدار کی کرسی سنبھال لیتے ہیں اور میاں نواز شریف کو قید کر لیتے ہیں مشرف کے دور حکومت میں 27 دسمبر 2007 کو دو مرتبہ کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی لیاقت باغ میں قتل کردیا جاتا ہے اس سے پہلے 16 اکتوبر 1951 کو اسی لیاقت باغ میں ملک کے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل بھی کیا جاتا ہے تاریخ کی یہ ستم ظریفی ایک بار پھر سامنے آتی ہے اور 2008 میں مشرف صاحب استعفیٰ دے دیتے ہیں اور ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت بناتی ہے آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم مقرر ہوتے ہیں بدقسمتی سے یوسف رضا گیلانی کو بدعنوانی کی سزا میں نااہل کردیا جاتا ہے اور 2013 کے انتخابات ہوتے ہیں پاکستان مسلم لیگ نواز اقتدار کے مزے لینے آجاتی ہے تاریخ پھر دہراتی ہے 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نواز شریف کو بیرون ملک اثاثے ظاہر نہ کرنے اور بدعنوانی کے جرم میں تاحیات نااہل کردیتی ہے اور ن لیگ کے وفادار رکن شاہد خاقان عباسی اقتدار کے 10 ماہ مکمل کرتے ہیں اور 2018 کے انتخابات ہوتے ہیں اور ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف جس کی بنیاد 1996 میں کرکٹر عمران خان نے رکھی تھی 2018 میں اقتدار کی کرسی کا سہرا سجاتے ہیں لیکن 2021 میں ان خلاف اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لے کر آتی جو کامیاب ہوجاتی ہے جس کو کبھی امریکی سازش کبھی اندرونی سازش تو کبھی سائفر کے ذریعے ہٹانے کا نام دیا جاتا رہا اور 10 اپریل 2021 کو میاں شہبازشریف اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور شہبازشریف کی حکومت یہ چند مہینے معاشی لحاظ سے بدترین ثابت ہوتے ہیں اور یوں اس دور اقتدار میں سیاستدانوں اور صحافیوں کی جبری گمشدگی آئینی پامالی کا دور رورہ رہتا ہے اور 2023 میں نگران حکومت بنائی جاتی ہے اور انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے اور جنوری 2024 میں 12 عام انتخابات کروانے کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔
پاکستان بننے سے اب تک کوئی بھی حکومت ایسی نہ آسکی جو اپنے 5 سال عزت کے ساتھ پورے کرسکے اس کو کس کی بدقسمتی کہا جائے حکمرانوں کی یا عوام کی کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں “جیسی رعایا ہوگی اس پر ویسے حکمران مسلط کیے جائیں گے” ذرا سوچیں آخر قصور وار کون؟ لمحہ فکریہ!
مزید پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔